سایہ دھیرے دھیرے ڈھل جاتا ہے
وقت بدلتے بدلتے بدل جاتا ہے
کب تک کوئی ٹھوکریں کھاتا ہے
کھا کھا کے ٹھوکر سنبھل جاتا ہے
لوگ چہرے بھی بھول جاتے ہیں
مطلب جب اپنا نکل جاتا ہے
یہ بددُعا ہے ٗ اِس میں آ کے
احاطۂ سینہ و جگر جل جاتا ہے
خالی ہاتھ ہر طرح ہو جاتا ہے بشر
سینے سے نکل کر جب دل جاتا ہے
راہوں سے ہی بھٹک جاتا ہے یہ
جب جب بھی راہِ منزل جاتا ہے
ریزہ ریزہ تو تب ہی ہو جاتا ہے
کسی کی اداؤں سے جب بہل جاتا ہے