ہر کسی کو میں کیوں دیکھاوں
سب کو تو اپنا زخم دیکھایا نہیں جاتا
جس سے بجھ جائے مددتوں کی پیاس میری
مجھے کیوں ایسا جام پیلایا نہیں جاتا
ہر روز خواب میں آنا تو ٹھیک ہے
لیکن مجھ سے ملنے کیوں ُاس سے آیا نہیں جاتا
کتاب تک رکھوں میں کتابوں میں پھول
اب ماضی کا بوجھ مجھ سے ُاٹھایا نہیں جاتا
برسوں سے کھول کر بیٹھی ہوں دروازہ
ان آنکھیوں کر اب کسی اور در پے لگایا نہیں جاتا
میں کچھ نہیں ہوں تمہارے لیے تو نا سہی
مجھ سے تو تمہارا اقراریں وفا بھلایا نہیں جاتا
خود ہی پڑھ لیا کرو میری شاعری کو تم
تمہیں دیکھتے ہوئے مجھ سے کچھ سنایا نہیں جاتا
یہ دل ہی تو ہے ، جو توڑ دیتے ہو بار بار
مگر مجھ سے تمہارا دل دکھایا نہیں جاتا
ہاں تم برے ہو لیکن پھر بھی اچھے لگتے ہو
کیا کروں تمہارے خلاف مجھ سے جایا نہیں جاتا