سب کچھ آنی جانی ہے
سارے رشتے مکمل فانی ہے
میری سانس بھی آنی جانی ہے
ہر لمحہ جدائی کی گھنٹی ہے
سانسوں کی ٹک ٹک کب تک چلتی ہے
آخر اس نے بھی ہمّت ہارنی ہے
دوستی یاری رشتے ناطے
سب اک وقتی کہانی ہے
دکھ سُکھ کی یہ ساری باتیں
سب کچھ وقت کی راگنی ہے
ہر سانس قیمتی مگر عارضی ہے
سب کچھ فانی مگر عمل باقی ہے
عجب کیفیت مجھ پر طاری ہے
ہر سانس اب بھاری لگتی ہے
کیا کمایا کیا کھایا اور کیا بچایا ہے
سب خلاص مگر حساب دینی ہے
اور بھی تھے میری محفل میں مگر
بِن تیرے ساری محفل ادھوری ہے
عمر بھر وفا کی تلاش میں بٹھکتا رہا
مگر اب اپنے اندر کی تلاش جاری ہے
جس کے خاطر سب کچھ سہتا تھا
آخر اُس نے ہی ہمیں اکیلا چھوڑا ہے
اب شاید رہ نہ پائیں ہم یہاں تنہا تنہا
اسی لئے ربّ کو پُکارا بس تُو کافی ہے