جب کوئی ستارہ ٹوٹ کر
زمیں کے آنگن میں اترتا ہے
تو اس ٹوٹے ستارے کا
مقدر کس سے ملتا ہے
مجھے لگتا ہے
جیسے ٹوٹنے والے ستارے کو
کوئی آغوش میں لے کر
بڑی چاہت سے رکھتا ہے
کبھی تو اس ستارے کو
کوئی آنچل میں بھرتا ہے
کسی کی چشم پرنم میں
یہی تارا دمکتا ہے
یہی تارا چمکتا ہے
یہ تارا جب کسی بنجر زمیں کی گود میں
سر رکھ کے سوتا ہے
تو اس بنجر زمیں سے تخم بن کر پھر ابھرتا ہے
اسے زرخیز کرتا ہے
کبھی قطروں میں قطرے کی طرح ڈھل جایا کرتا ہے
سمندر میں اچھلتا ہے
کسی سیپی میں چھپ کر پھر اچانک ڈوب جاتا ہے
مگر اک دن یہی تارا سمندر کے عمق سے
سیپ کے ہمراہ دوبارہ پھر ابھرتا ہے
یہ موتی بن کے آتا ہے
نئے سفر پہ جاتا ہے
کسی کی مانگ بھرتا ہے
یہ اپنی کہکشاں سے چھوٹ کر
کسی کو کہکشاں کے راستوں کا ہمسفر کر کے
دوبارہ ٹوٹ جاتا ہے
ستارا ڈوب جاتا ہے