جو گردش میں نہ اپنے ستارے ہوتے
پھر کئی حسینوں کی آنکھوں کے تارے ہوتے
ایک بار اپنی بھی لاٹری گر لگ جاتی
جانے کتنے مفاد پرست دوست ہمارے ہوتے
ہم اس کی محفل میں نہ جاتے کبھی
کوئل جیسی آواز کہ جو نہ مارے ہوتے
اسے میری چاہت کی کیسے خبر ہوتی
اگر میری جانب سے نہ کچھ اشارے ہوتے
سوچ سمجھ کے جو کرتے کاروبار الفت
پھر ہمیں اتنے زیادہ نہ خسارے ہوتے
وہ اتنے ستم نہ ڈھاتے جو اصغر مظلوم پر
دنیا کی نظروں میں ہم نہ بیچارے ہوتے