ستارے دیکھ رہے ہیں ابھر ابھر کے مجھے
کہ مِل رہے ہیں اشارے کسی سفر کے مجھے
میں اک شمعِ سرِ راہ گزارِ ہستی ہوں
کہ دیکھتی ہے ہوا بھی ٹھہر ٹھہر کے مجھے
صبا تھی میں سو مجھے باغ ہی میں رہنا تھا
غبار ہونا پڑا دشت سے گزر کے مجھے
لگا ہوا ہے میرا دل ابھی تو گڑیوں میں
گزر نہ جائیں یہ دِن بھی اد۱س کرکے مجھے
مِلا تھا رات مجھے اپنے آئینے میں کوئی
بہت ملال ہوا اُس سے بات کرکے مجھے