سرابوں کے پیچھے خوابوں کے پیچھے
سوالوں کے پیچھے جوابوں کے پیچھے
گزر گئی ہے میری ، ساری حیات
ان دیکھے ان سنے حجابوں کے پیچھے
تشنگی اور میری ، بڑھتی ہی گئی
بھا گا میں جتنا شبابوں کے پیچھے
شکوہ اضطراب دل و جاں کیسا
ملتا ہے سب کچھ شرابوں کے پیچھے
غریب بے چارہ ، سدا مرتا ہی رہا
امیروں ، وزیروں ، نوابوں کے پیچھے
ڈھونڈتے ہو جس کو ، ڈھونڈئے طاہر
گاؤں کی گلیوں ، تالابوں کے پیچھے