سرو کو انتظار کسی ساز کا رہا
منتظر میں بھی ایک آواز کا رہا
مطمئن جو دل کو کر جائے میرے
سامان وہ بھی اک راز کا رہا
دور تک اب دیکھے بھلا کیسے
نظر میں اثر اب کہاں باز کا رہا
سادے لفظوں میں کہے دیتے اتنا
میں قابل نہ اب کسی ہمراز کا رہا
کب تک دِل اے مسکن میں رہتی
روح کو بھی خرّم بہانہ پرواز کا رہا