وہ سایہ دار شجر
جو مجھ سے دور، بہت دورہے، مگر اُُس کی
لطیف چھاؤں
سجل، نرم چاندنی کی طرح
مرے وجود،مری شخصیت پہ چھائی ہے!
وہ ماں کی بانہوں کی مانند مہرباں شاخیں
جو ہر عذاب میں مجھ کو سمیٹ لیتی ہیں
وہ ایک مشفقِِِ دیرینہ کی دعا کی طرح
شریر جھونکوں سے پتوں کی نرم سرگوشی
کلام کرنے کا لہجا مجھے سکھاتی ہے
وہ دوستوں کی حسیں مسکراہٹوں کی طرح
شفق عذار، دھنک پیرھن شگوفے،جو۔۔
مجھے زمیں سے محبت کا درس دیتے ہیں!
اُُُُداسیوں کی کسی جانگداز ساعت میں
میں اُُُُس شاخ پہ سر رکھ کے جب بھی رویا ہوں
تو میری پلکوں نے محسوس کر لیا فوراّ
بہت ہی نرم سی اک پنکھڑی کا شیریں لمس!
(نمی تھی آنکھ میں لیکن میں مسکرایا ہوں)
کڑی ہے دھوپ تو
پھر برگ برگ ہے شبنم
پتیاں ہوں لہجے
تو پھر پھول پھول ہے ریشم
ہرے ہوں زخم
تو سب کونپلوں کا رس مرہم!
وہ ایک خوشبو
جو میرے وجود کے اندر
صداقتوں کی طرح زینہ زینہ اُُُتری ہے
کِِِِرن کِِِِرن میری سوچوں میں جگمگاتی ہے
(مجھے قبول، کہ وجداں نہیں یہ چاند مرا
یہ روشنی مجھے ادراک دے رہی ہے مگر)
وہ ایک جھونکا
جو اُُُس شہرِِِ گل سے آیا تھا
اب اُُُس کے ساتھ بہت دور جا چکا ہوںمیں۔۔۔۔
میں ایک ننھا سا بچہ ہوں اور خاموشی سے
بس اُُُس کی اُُُنگلیاں تھامے، اور آنکھیں بند کئے
جہاں جہاں لئے جاتا ہے، جارہا ہوں میں!
وہ سایہ دار شجر
جو دن میں میرے لئے ماں کا آنچل ہے
وہ رات میں ، میرے آنگن پہ ٹھہرنے والا
شفیق،نرم زباں، مہربان دل ہے
میرے دریچوں میں جب چاندنی نہیں آتی
جو بے چراغ کوئی شب اُُُترنی لگتی ہے
تو میری آنکھیں کرن کے شجر کو سوچتی ہیں
دبیز پردے، نگاہوں سے ہٹنے لگتے ہیں
ہزار چاند، سرِشاخِِِِ گُُُل اُُُبھرتے ہیں!