سلگتی شب کی آنچ پر کیسے سفر کریں
تاریکیوں کے شور میں اب کیسے سحر کریں
شدت سے یاد آتی ھے وہ گہری حسین شام
ماضی کے اس نگر کو اب کیسے امر کریں
رسوائیوں کی لاش اٹھاتے ھوئے گزری ھے زندگی
وقت نزع کے عالم میں خود کو معتبر کریں
اب مجھ کو شاد رکھے گا خود ہی میرا وجود
دل سے غبار جھاڑ کر اب اک نیا سفر کریں