سماعت کو سمندر کی صدائیں مات دیتی ہیں
دسمبر میں مجھے تازہ ہوائیں مات دیتی ہیں
مسلسل کرب کی راتوں میں بیٹھا سوچتا ہوں میں
اندھیروں کو نجانے کب ضیائیں مات دیتی ہیں
سجے بازار میں دیکھے کھلونے بیش قیمت تو
مجھے بچے کی ضد اور التجائیں مات دیتی ہیں
مجھے بیمار بوڑھی ماں کی صحت کے لئے شاہی
طبیب شہر کی مہنگی دوائیں مات دیتی ہیں