سمندر میں اترتا ہوں ،تو تنہائی ستاتی ہے

Poet: سید بدیع الرحمان By: سید بدیع الرحمان, Skardu

سمندر میں اترتا ہوں ،تو تنہائی ستاتی ہے
اندھیروں میں بھٹکتا ہوں ،تو تنہائی ستاتی ہے

خموشی سے گزرتی ہیں یہ شامیں اور یہ راتیں
میں خود سے بات کرتا ہوں ، تو تنہائی ستاتی ہے

تمہاری یاد کے جگنو، اندھیروں میں چمکتے ہیں
مگر جب پاس آتا ہوں، تو تنہائی ستاتی ہے

کوئی راہی، کوئی ہمدم، نہ کوئی ہمسفر میرا
مسافت جب بڑھاتا ہوں ، تو تنہائی ستاتی ہے

ہر اک شے سے جدا ہوں، خود سے بھی خفا ہوں میں
خود کو آئینہ دکھاتا ہوں ، تو تنہائی ستاتی ہے

بدیع ،دل کے اندر شور ہے، پھر بھی خموشی ہے
میں لفظوں کو بناتا ہوں، تو تنہائی ستاتی ہے

بدیع، دل کے زخموں کو چھپاؤں کس طرح آخر؟
کہ قصے جب سناتا ہوں ، تو تنہائی ستاتی ہے
 

Rate it:
Views: 399
10 Dec, 2024
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL