سمندر میں اترتا ہوں ،تو تنہائی ستاتی ہے
اندھیروں میں بھٹکتا ہوں ،تو تنہائی ستاتی ہے
خموشی سے گزرتی ہیں یہ شامیں اور یہ راتیں
میں خود سے بات کرتا ہوں ، تو تنہائی ستاتی ہے
تمہاری یاد کے جگنو، اندھیروں میں چمکتے ہیں
مگر جب پاس آتا ہوں، تو تنہائی ستاتی ہے
کوئی راہی، کوئی ہمدم، نہ کوئی ہمسفر میرا
مسافت جب بڑھاتا ہوں ، تو تنہائی ستاتی ہے
ہر اک شے سے جدا ہوں، خود سے بھی خفا ہوں میں
خود کو آئینہ دکھاتا ہوں ، تو تنہائی ستاتی ہے
بدیع ،دل کے اندر شور ہے، پھر بھی خموشی ہے
میں لفظوں کو بناتا ہوں، تو تنہائی ستاتی ہے
بدیع، دل کے زخموں کو چھپاؤں کس طرح آخر؟
کہ قصے جب سناتا ہوں ، تو تنہائی ستاتی ہے