سنا ہے مجھ سے بچھڑ کے وہ بے قرار نہ تھا
اسے تھا دعویٰ ،حقیقت میں مجھ سے پیار نہ تھا
نبھاہ کرتے بھلا کیسے عمر بھر دونوں
جب ایک دوجے کی نیت پہ اعتبار نہ تھا
ملے تھے کتنی ہی مدت کے بعد ہم تنہا
تھی دھول وقت کی ،چہروں پہ وہ نکھار نہ تھا
گرا جو کھا کے میں ٹھوکر تو غیر آگے بڑھے
اٹھانے والوں میں اپنا و کوئی یار نہ تھا
وہ کام زیست میں کرنا پڑا مجھے اکثر
جسے میں کرنے کو دل سے کبھی تیار نہ تھا
ہماری قوم کی قسمت بھی جاگتی کیسے
کہ رہنما ہی ہمارا کوئی بیدار نہ تھا
جو شعر کہتا تھا گمنام مر گیا زاہد
کلام خوب تھا پر ا س کا اشتہا ر نہ تھا