سنا ہے مجھ سے بچھڑ کے وہ بےقرار نہ تھا
یعنی تھا دعویٰ،حقیقت میں مجھ سے پیار نہ تھا
نبھاہ کرتے بھی ہم کیسے عمر بھر دونوں
جب ایک دوجے کی نیت پہ اعتبار نہ تھا
گلوں کی قدر نہ قدرت نے تم کو سکھلائی
چبھا تمھیں تو کبھی زندگی میں خار نہ تھا
خیال یار کی بارش میں بھیگتے تو مگر
غم جہان کا صحرا ہوا ہی پار نہ تھا
ملے تو پیار کے سورج میں پھر تپش نہ رہی
تھی دھول وقت کی ،جذبوں پہ وہ نکھار نہ تھا
وہ کام زیست میں کرنا پڑا مجھے اکثر
جسے میں کرنے کو دل سے کبھی تیار نہ تھا
ہماری قوم کی تقدیر جاگتی کیسے
کہ رہنما ہی ہمارا کوئی بیدار نہ تھا
گرا جو کھا کے میں ٹھوکر تو دوست ہنسنے لگے
اٹھایا جس نے وہ میرا عدو تھا ، یار نہ تھا
عجیب لگنے لگی ماں کے بعد یہ دنیا
میں اس کے ہوتے غموں سے ہوا دوچار نہ تھا
جو شعر کہتا تھا ،گمنام مر گیا زاہد
کلام خوب تھا پر اس کا اشتہار نہ تھا