سنبھالا گیا
Poet: رشید حسرتؔ By: رشید حسرتؔ, Quettaگیا جہان سے ادنا یا کوئی اعلا گیا
کسی کا غم بھی کہاں دیر تک سنبھالا گیا
سلیقہ اس میں مجھے اک ذرا دِکھے تو سہی
کہا جو کام ہمیشہ وہ کل پہ ٹالا گیا
قُصور ہو گا تُمہارا بھی کچھ نہ کچھ گُڑیا
سبب تو ہے جو تمہیں گھر سے یوں نکالا گیا
پجاری مال کے ایسے کہ جیسے مالا ہو
جہاں بھی چاند گیا ساتھ اُس کا ہالہ گیا
کہا تھا میں نے کہ گھر سے اتار لو جالا
مکاں میں اب ہے اندھیرا وہ سب اجالا گیا
تڑپ، جدائی، محبت، جمال، زیبائی
نجانے کون سے سانچوں میں دل کو ڈھالا گیا
رشیدؔ کاہے کی یہ پنجہ آزمائی ہے؟
کبھی سنگھار سے دیکھا کہ رنگ کالا گیا؟
More Sad Poetry






