صا حب اسے کہنا
یہ خاص و عام تو
سب کتابی باتیں ہں
ہم تو خود الجھے بیٹھے ہیں
سمندر ہی سمندر ہے
ان آنکھوں کو کنارہ کوئی نیہں ملتا
ھمیں تو اب جینے کا کوئی سہارہ بھی نیہں ملتا
پھولوں کے اس موسم میں بھی
شمع کو پروانہ کوئی نیہں ملتا
جس کی جستجو میں گزار دی
ہم نے اپنی زندگی ساری
ہمیں تو اس شہر وفا کا بھی
حوالا کوئی نیہں ملتا
میرے سپنوں کی وادی میں
اب بھی سناٹا ہیں
ہمیں تو اپنی پہچان کا
اشارہ کوئی نیہں ملتا
فلک پر بھی کوئی
اپنے نام کا ستارہ کوئی نہیں ملتا