حالتیں کھنڈر سی ہیں ملگجے ہیں سنّاٹے
دِل حویلی بوسِیدہ گُونجتے ہیں سناٹے
وقت کے مُعلّم نے جوڑ توڑ سِکھلائی
وحشتوں کی تختی پر لِکھ لِیئے ہیں سناٹے
ہو سکی میسّر کب مُدّتوں سے تنہائی
رقص میں ہے وِیرانی ناچتے ہیں سنّاٹے
کیا ہُؤا ہے دِل شائد پِھر کِسی کا ٹُوٹا ہے
شور حشر کا سا ہے موت سے ہیں سنّاٹے
اِس نگر جو آئے ہو کُچھ خرِید کر جاؤ
یہ پڑے ہیں ویرانے، وہ سجے ہیں سنّاٹے
شُکریہ ہے یزداں کا میرے حِصّے میں جِس نے
یا تو ہِجرتیں رکھ دِیں یا لِکھے ہیں سنّاٹے
کِس نے یہ کہا حسرتؔ کس مپُرسی میں گُزری
پاس اپنے سب کُچھ ہے، رتجگے ہیں، سنّاٹے