کتنا سنگدل اُس کو وقت نے بنا دیا
پہچان تھا جو اُس کی اسی کو بھلا دیا
سرورق بنایا جس کو وفا کی کتاب کا
جفا کا سبق اُس کو کس نے پڑھا دیا
برپا کیا دل میں جذبوں کا طوفان جس نے
جذبات سے اُسے کھیلنا کس نے سکھا دیا
سنگ جسے دیکھ کر جلتا تھا یہ جہاں
اُس شخص کو کیوں تو نے فریم میں سجا دیا
کیسے بھلا نہ سمجھوں میں ہی مٹ گیا
نام میرا جو ہر کتاب سے اُس نے مٹا دیا
جاگیں جو امنگیں اس کے ہر خیال سے
اُسی ستمگر سے پوچھو کیوں اُن کو سلا دیا
شعروں میں خود کو پا کے مسکراتا جو بار بار
اُسی کو آج نوید کی شاعری نے رُلا دیا