Add Poetry

سواری اُونٹ کی ہے

Poet: rafiq sandeelvi By: rashid sandeelvi, islamabad

سواری اُونٹ کی ہے
اور میں شہر ِ شکستہ کی
کسی سنساں گلی میں سر جھکائے
ہاتھ میں بد رنگ چمڑے کی مہا ریں تھام کر
اُس گھر کی جانب جا رہا ہوں
جس کی چوکھٹ پر
ہزاروں سال سے
اک غم ذدہ عورت
مرے وعدے کی رسی
ریشہء دل سے بنی
مضبوط رسی سے بندھی ہے
آنسوں سے تر نگاہوں میں
کسی کہنہ ستارے کی چمک لے کر
مرے خاکستری ملبوس کی
مخصوص خوشبو سونگھنے کو
اور بھورے اُونٹ کی
دکھ سے لبالب بلبلاہٹ
سننے کو تیار بیٹھی ہے

وہی سیلن زدہ اوطاق کا گوشہ
جہاں میں ایک شب اس کو
لرزتے، سنسناتے ، زہر والے
چوبی تیروں کی گھنی بارش میں
بے بس اور اکیلا چھوڑ آیا تھا
مجھے سب یاد ہے قصہ
برس کر ابر بالکل تھم چکا تھا
اور خلا میں چاند
یوں لگتا تھا جیسے
تخت پر نو عمر شہزادہ ہو کوئی
یوں ہوا چہرے کو مس کر کے گزرتی تھی
کھ جیسے ریشمیں کپڑا ہو کوئی
اپنے ٹھنڈے اور گیلے خول کے اندر
گلی سوئی ہوئی تھی
دم بہ خود سارے مکاں
ایسے نظر آتے تھے
جیسے نرم اور باریک کاغذ کے بنے ہوں
موم کے ترشے ہوئے ہوں
اک بڑی تصویر میں
جیسے ازل سے ایستادہ ہوں

وہی سیلن زدہ اوطاق کا گوشہ
جہاں مہتا ب کی بُراق کِرنیں
اُس کے لانبے اور کھلِے بالوں میں اُڑسے
تازہ تر انجیر کے پتے کو روشن کر رہی تھیں
اُس کی گہری گندمیں کُہنی کا بوسہ یاد ہے مجھکو
اُسی شب
میں نے جب اِک لمحہء پُرسوز میں
تلوار ،اُس کے پاؤں میں رکھ دی تھی
اور پھر یہ کہا تھا:
“میرا وعدہ ہے
یہ میرا جسم اور اِس جسم کی حاکم
یہ میری باطنی طاقت
قیامت اور
قیامت سے بھی آگے
سرحدِ امکاں سے لا امکاں تلک
تیری وفا کا ساتھ دے گی
وقت سُنتا ہے
گواہی کے لئے
آکاش پر یہ چاند
قدموں میں پڑی یہ تیغ
اور بالوں میں یہ انجیر کا پتا ہی کافی ہے

خداوندا،وہ کیسا مرحلہ تھا
اب یہ کیسا مرحلہ ہے
ایک سنسانی کا عالم ہے
گلی چپ ہے
کسی ذی روح کی آہٹ نہیں آتی
یہ کیسی ساعتِ منحوس ہے
جس میں ابھی تک
کوئی ننھا سا پرندہ یا پتنگا
یا کوئی موہوم چیونٹی ہی نہیں گزری
کسی بھی مردوزن کی
میں نے صورت ہی نہیں دیکھی
سواری اُونٹ کی ہے
اور میں شہر ِشکستہ کی
کسی سنساں گلی میں سر جھکائے
ہاتھ میں بد رنگ چمڑے کی مہاریں تھام کر
اُس گھر کی جانب جا رہا ہوں
یا کسی محشر
خموشی کے کسی محشر کی جانب جا رہا ہوں
ہچکیوں اور سسکیوں کے باد کا محشر
کوئی منظر
کوئی منظر کھ جس میں اِک گلی ہے
ایک بھورا اُونٹ ہے
اور ایک بزدل شخص کی ڈھیلی رفاقت ہے
سفر نا مختتم
جیسے ابد تک کی کوئی لمبی مسافت ہے

سواری اُونٹ کی ہے
یا کاٹھ کے اعصاب کی ہے
آزمائش اک انوکھے خواب کی ہے
پتلیاں ساکت ہیں
سایہ اُونٹ کا ہلتا نہیں
آیئنہء آثار میں
ساری شبیہیں گم ہوئی ہیں
اُس کے ہونے کا نشاں ملتا نہیں
کب سے گلی میں ہوں
کہاں ہے وہ مری پیاری
مری سیلن زدہ اوطاق والی
وہ سُریلی گھنٹیوں والی
زمینوں،پانیوں اور اَنفس و آفاق والی
کس قدر آنکھوں نے کوشش کی
مگر رونا نہیں آتا
سبب کیا
گلی کا آخری کونا نہیں آتا
گلی کو حکم ہو اب ختم ہو جائے
میں بھورے اور بوڑھے اُونٹ پر بیٹھے ہوئے
پیری کے دن گنتا ہوں
شائد اِس گلی میں رہنے والا
کوئی اُس کی بارگہ میں
دست بستہ معذرت کی بھیک مانگوں
سر جھکاؤں
اور اُس زنبور کے صدقے
کسی دن اپنے بوڑھے جسم کو
اور اُونٹ کو لے کر
گلی کی آخری حد پار کر جاؤں

Rate it:
Views: 797
06 Oct, 2012
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
محبت تجھ سے وابستہ رہے گی جاوداں میری محبت تجھ سے وابستہ رہے گی جاوداں میری
ترے قصہ کے پیچھے پیچھے ہوگی داستاں میری
کریں گی دیکھیے الفت میں کیا رسوائیاں میری
جہاں سنئے بس ان کا تذکرہ اور داستاں میری
قیامت میں بھی جھوٹی ہوگی ثابت داستاں میری
کہے گا اک جہاں ان کی وہاں یا مہرباں میری
بہت کچھ قوت گفتار ہے اے مہرباں میری
مگر ہاں سامنے ان کے نہیں کھلتی زباں میری
قیامت کا تو دن ہے ایک اور قصہ ہے طولانی
بھلا دن بھر میں کیوں کر ختم ہوگی داستاں میری
وہ رسوائے محبت ہوں رہوں گا یاد مدت تک
کہانی کی طرح ہر گھر میں ہوگی داستاں میری
سناؤں اس گل خوبی کو کیوں میں قلب کی حالت
بھلا نازک دماغی سننے دے گی داستاں میری
کہوں کچھ تو شکایت ہے رہوں چپ تو مصیبت ہے
بیاں کیوں کر کروں کچھ گو مگو ہے داستاں میری
اکیلا منزل ملک عدم میں زیر مرقد ہوں
وہ یوسف ہوں نہیں کچھ چاہ کرتا کارواں میری
یہ دل میں ہے جو کچھ کہنا ہے دامن تھام کر کہہ دوں
وہ میرے ہاتھ پکڑیں گے کہ پکڑیں گے زباں میری
پھنسایا دام میں صیاد مجھ کو خوش بیانی نے
عبث پر تو نے کترے قطع کرنی تھی زباں میری
نہ چھوٹا سلسلہ وحشت کا جب تک جاں رہی تن میں
وہ مجنوں ہوں کہ تختے پر ہی اتریں بیڑیاں میری
مشبک میں بھی تیر آہ سے سینے کو کر دوں گا
لحد جب تک بنائے گا زمیں پر آسماں میری
محبت بت کدہ کی دل میں ہے اور قصد کعبہ کا
اب آگے دیکھیے تقدیر لے جائے جہاں میری
بھلا واں کون پوچھے گا مجھے کچھ خیر ہے زاہد
میں ہوں کس میں کہ پرسش ہوگی روز امتحاں میری
تصدق آپ کے انصاف کے میں تو نہ مانوں گا
کہ بوسے غیر کے حصے کے ہوں اور گالیاں میری
مصنف خوب کرتا ہے بیاں تصنیف کو اپنی
کسی دن وہ سنیں میری زباں سے داستاں میری
فشار قبر نے پہلو دبائے خوب ہی میرے
نیا مہماں تھا خاطر کیوں نہ کرتا میزباں میری
قفس میں پھڑپھڑانے پر تو پر صیاد نے کترے
جو منہ سے بولتا کچھ کاٹ ہی لیتا زباں میری
وہ اس صورت سے بعد مرگ بھی مجھ کو جلاتی ہیں
دکھا دی شمع کو تصویر ہاتھ آئی جہاں میری
ہر اک جلسے میں اب تو حضرت واعظ یہ کہتے ہیں
اگر ہو بند مے خانہ تو چل جائے دکاں میری
طریقہ ہے یہی کیا اے لحد مہماں کی خاطر کا
میں خود بے دم ہوں تڑواتی ہے ناحق ہڈیاں میری
پسند آیا نہیں یہ روز کا جھگڑا رقیبوں کا
میں دل سے باز آیا جان چھوڑو مہرباں میری
ہزاروں ہجر میں جور و ستم تیرے اٹھائے ہیں
جو ہمت ہو سنبھال اک آہ تو بھی آسماں میری
یہ کچھ اپنی زباں میں کہتی ہیں جب پاؤں گھستا ہوں
خدا کی شان مجھ سے بولتی ہیں بیڑیاں میری
بنایا عشق نے یوسف کو گرد کارواں آخر
کہ پیچھے دل گیا پہلے گئی تاب و تواں میری
پڑھی اے بزمؔ جب میں نے غزل کٹ کٹ گئے حاسد
رہی ہر معرکہ میں تیز شمشیر زباں میری
 
ناصر
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets