سونگھو ہر خون کی خوشبو سبھی یہ سرشام انوکھے
مٹُھی جتنا ماس لیکر موت کو ٹھہرے مہمان انوکھے
بٹوارا یا بے رحمی اب پہچان پرور تخلیق تیری
کبھی ہندو کبھی مسلمان انسان کے یہ نام انوکھے
المخلوق یہ زندگی ڈرتے ہے وقت کے سائے سے
لگی تھی آگ لنکا کو،کتنے نکلے تھے وہ رام انوکھے
مندر مسجد بت بھگوان سب آدم کے اولاد کی فطرت
خود کو خدا بنائے بیٹھا اور کرتا ہے کتنے کام انوکھے
اٹھتا ہے روز انقلاب لیکر چڑھتا ہے روایت کی سولی
مذھب سے مہذب تیاگ تہذیب تمام انوکھے
رسم فرقے ذات افادیت اکثر آدمی کو لڑاتے رہے
اپنے مفاد کا ماتم کرتے دنیا سے لیتا ہے دام انوکھے