علم و فن کے
کالے سویروں سے
مجھے ڈر لگتا ہے
ان کے بطن سے
ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں
سچ کی آواز کو
جو ڈس لیتے ہیں
سہاگنوں کی پیاسی آتما سے
ہوس کی آگ بجھاتے ہیں
صلاحیتوں کے چراغوں کی روشنی کو
دھندلا دیتے ہیں
بجھا دیتے ہیں
حق کے ایوانوں میں
اندھیر مچا دیتے ہیں
حقیقتوں کا ہم زاد
اداس لفظوں کے جنگلوں کا
آس سے
ٹھکانہ پوچھتا ہے
انا اور آس کو
جب یہ ڈستے ہیں
آدمیت کی آرتھی اٹھتی ہے
کم کوسی' بےہمتی بےاعتنائی کے شراپ کے سائے
ابلیس کے قدم لیتے ہیں
شخص کبھی جیتا کبھی مرتا ہے
کھانے کو عذاب ٹکڑے
پینے کو تیزاب بوندیں ملتی ہیں
خود کشی حرام سہی
مگر جینا بھی تو جرم ٹھہرا ہے
ستاروں سے لبریز چھت کا
دور تک اتا پتا نہیں
ہوا ادھر سے گزرتے ڈرتی ہے
بدلتے موسموں کا تصور
شیخ چلی کا خواب ٹھہرا ہے
یہاں اگر کچھ ہے
'...........تو
منہ میں زہر بجھی تلواریں ہیں
پیٹ سوچ کا گھر
ہات بھیک کا کٹورا ہوئے ہیں
بچوں کے کانچ بدن
بھوک سے
کبھی نیلے کبھی پیلے پڑتے ہیں
!اے صبح بصیرت
تو ہی لوٹ آ
کہ ناگوں کے پہرے
کرب زخموں سے
رستا برف لہو
تو نہ دیکھ سکوں گا
سچ کے اجالوں کی حسین تمنا
مجھے مرنے نہ دے گی
اور میں
اس بےوضو تمنا کے سہارے
کچھ تو سوچ سکوں گا
سوچ کے گھروندوں میں
زیست کے سارے موسم بستے ہیں