اک حرف ناتواں ہے کہیں بھی تو کیا کہیں
سوچا تھا دل کا حال کسی طور جا کہیں
بیٹھے ہیں انتظار میں بے چینیاں لیے
شاید وہ لوٹ آئیں انھیں مدعا کہیں
تنہائیاں رفیق رہی ہیں تمام عمر
تم ہی کہو کہ زیست کو کیوں نہ سزا کہیں
اک درد ہے جو روح کو رکھتا ہے مضطرب
اس درد لا دوا کو بلا آخر دوا کہیں
اوروں کی طرح تم بھی تو کچھ غیر کم نہیں
اپنا کہیں تو کیسے ،تمھیں کیوں جدا کہیں
اچھا ہے دل کو ایسے ہی بہلا لیا کریں
ہم بے رخی کو پیار کی کوئی ادا کہیں
سنتا ہے دیکھتا ہے نہ آہوں کا کچھ اثر
پتھر کو کیسے پوجیں، بھلا کیوں خدا کہیں