سوچتا ہوں کہ بدل لوں خود کو مگر سچ کہ اب یہ ممکن بھی نہیں
سوچتا ہوں بہہ جاؤں کسی دریا کی طغیانی میں کہتے ہیں کنارے تیرا کوئی جرم نہیں
سوچتا ہوں اسے منگنا چھوڑ دو اب خدا سے
کہتی ہے دعا بعد اسکے تیری کوئی دعا بھی نہیں
سوچتا ہو کہ اب اسے اسی کے حال پہ چھوڑ دوں
کہتا ہے عشق وہ پاگل ہے سوا تیرے اسکا کوئی نہیں
سوچتا ہوں کہ اب چھوڑ دوں خود کو جلانہ خود کو رولانا
کہتا ہے سگریٹ سوا میرے تیرا کوئی رقیب بھی نہیں
سوچتا ہوں کہ اسے اس کی مخبت کی نظر کر دوں
دل کی صدا اچھا ہے وقت اسکا سوا اس کے کچھ نہیں
سوچتا ہوں اب کبھی وہ ملے تو نظریں جھکا کے گزر جاوں
کہتا ہے خیال اتنا نہ کر ظلم تیرے بس میں یہ بات نہیں
سوچتا ہوں کہ کر لو گھر کسی گورستاں اب میں اپنا
خواب کہتا ہے رک جا ارے رک جا اب تو بچا کچھ بھی نہیں
سوچتا ہوں کہ اب لوٹ بھی آئےتو منوں پھیر لو یہ کہہ کر کون ہو تم ؟
ایمان کہتا ہے نفیس سوا اسکے کسی اور کو دیکھا بھی تو نہیں ۔