سونی گلیوں میں بسر یہ زندگی آسان ہے
سوچتی ہوں بے وفا سے دوستی انجان ہے
دے گیا ہے سوچنے کو پیار کی وہ لذتیں
وہ بھی اپنی خواہشوں میں اب وہی انسان ہے
شاہراہِ زیست پہ چلنا بہت دشوار ہے
پوچھتے ہیں لوگ مجھ سے خود کشی امکان ہے
بڑھ رہی ہے پیاس میرے صبر کی بھی دیکھئے
روزہ رکھ کر پوری دل کی تشنگی گلدان ہے
مانتی ہوں کٹ ہی جاتے ہیں یہ پل اچھے برے
ہم اکیلے دور تجھ سے دل لگی پہچان ہے
ہر طرف بکھری پڑی ہوں گرمیوں کے درمیاں
تیرگی کی انتہا ہے ، روشنی نقصان- ہے
لوٹ آؤ پھر ہوائیں مست ہیں اس شہر میں
بن ترے وہ جانِ جاں آوارگی کا آن ہے
صبر کا دامن کسی حالت میں اپنے ہاتھ سے
چھوڑ کر دیکھو یہ رب کی بندگی فیضان ہے
سوچتی ہوں جان محسن کی قبائیں اوڑھ کر
ہاتھ میں صاحب! قلم ہے ، شاعری دیوان ہے