سپردگی شاخِ گل کی، وحشت غزال کی ہو
جو اس طرح ہو، تو دوستی پھر کمال کی ہو
ہجومِ اہلِ طلب استادہ تھا، جب وہ گزرا
مگر کسی نے جو عرضِ غم کی مجال کی ہو
کوئی تو ایسا ہو جس پر اسکا گمان گزرے
کہیں کہیں تو مشابہت خدّ و خال کی ہو
وہ چند سانسوں کے واسطے کیوں اَنا کو بیچے
کہ عمر بھر جس نے زندگی پائمال کی ہو
ہے کون اپنی طرح کہ جس سےغمِ جہاں کے
ستم بھی جھیلے ہوں، عاشقی بھی کمال کی ہو
غزل کہی تو، لہو بدن سے نِچڑ گیا ہے
کہ جیسے صحرائے مرگ، وادی خیال کی ہو
فراز زندہ ہوں اب تلک میں تو شدّتوں سے
کہ مر نہ جاؤں، جو زندگی اعتدال کی ہو