سکون درد کو ، غم کو دوا بناتی ہے
یہ شاعری ہے ، عجب معجزے دکھاتی ہے
کسی کے پاں کی آہٹ ، کسی کی سرگوشی
ہوائے ہجر ، صدائیں بہت سناتی ہے
بدلنے لگتی ہے ہر گام پر سراب کی شکل
ہوائے دشت ، بہت صبر آزماتی ہے
اسی سے شکوہ بھی رہتا ہے تلخ گوئی کا
کہ جس سے اپنی طبیعت قرار پاتی ہے
تمہاری مجھ سے ملاقات بھی اچانک تھی
تمہارا مل کے بچھڑنا بھی حادثاتی ہے
کہیں یہ کوئی نئی سازشِ ہوا تو نہیں
کہ کچھ چراغ بچاتی ہے ، کچھ بجھاتی ہے