مہ کدوں میں نہ سکوں ہے نہ ہی بت خانوں میں
دل کو سمجھانے کی منزل کہیں ویرانوں میں
آکے چپ چاپ سے یوں پیار کے لمحوں کے لئے
کتنے جذبات کے آنسو میری پلکوں کے لئے
اپنے اظہار کی طاقت میرے لفظوں کے لئے
تیری باتوں میں کہاں دم تیرے افسانوں میں
مہ کدوں میں نہ سکوں ہے نہ ہی بت خانوں میں
اپنے اشعار سے کچھ گیت لکھا کرتے ہیں
جا کے ساحل پہ کبھی سیپ چُنا کرتے ہیں
ہو ضرورت تو یہ دل تھام لیا کرتے ہیں
زیست کا لمبا سفر ہے تیرے دیوانوں میں
مہ کدوں میں نہ سکوں ہے نہ ہی بت خانوں میں
مثلِ شمع کا سر شام ہی جل جانے سے
جُھلسے پروانوں کے دل غم سے کچل جانے سے
ابر عارف کا نظروں سے چھلک جانے سے
تیرے شعلوں میں کہاں دم تیرے پروانوں میں
مہ کدوں میں نہ سکوں ہے نہ ہی بت خانوں میں