سیال شوق میں ہے باغیانہ تنہائی
زوال رت میں ہر اک تازیانہ تنہائی
ندائے طورکی ہر بازگشت سنتی ہے
حرا کی گود میں ہے صوفیانہ تنہائی
قبائے حرف و سخن ساتھ لیے پھرتی ہے
ردائے درد اوڑھے شاعرانہ تنہائی
نقوش سطوت ماضی تراش لائی ہے
جلال عشق میں ہے حاکمانہ تنہائی
اداس موسموں کیساتھ رقص کرتے ہوئے
خمار وصل میں ہے والہانہ تنہائی
ہجوم گردش یاراں کو بھی خبر نہ ہوئی
فصیل جاں میں رہی جارحانہ تنہائی
نگار خانہ دل میں دھمال ہے اسکی
جو دیکھتا ہے میری غائبانہ تنہائی