سیاہ چادر سی اوڑھنے لگی ھے رات
پھیلی تاریکیاں ھونے لگی ھے رات
میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھامے
ساحل کی گیلی ریت پر چلنے لگی ھے رات
تنہائی کے گھپ اندھیرے میں
سہمی ہوئی ڈرنے لگی ھے رات
یادوں کی پھلتی ہوئی پر چھائیوں سے
کھوئی کھوئی سی گزرنے لگی ھے رات
دلوں میں درد کی محفل سجائے
اشک آہوں میں بیتنے لگی ھے رات
چمکتے چاند کے بام پر اتر آنے سے
پھیلتی چاندنی میں نکھرنے لگی ھے رات
مسحور کرتی ہوئی رات کی رانی سے
اپنے سحر کے حصار میں لینے لگی ھے رات
دور بجتی ڈھولکی کی تاپ پر
فضا میں نغمگی سی بکھیرنے لگی ھے رات
اپنی ضد اور من مانیاں کرتی ہوئی عائش
ہر لمحہ شباب کے سے کٹنے لگی ھے رات