سینے میں میرے قلب مچلتا رہتا ہے
موم کی طرح ہر وقت پگھلتا رہتا ہے
مبتلا ہے یہ آج بھی اُس ماضی میں
یاد کرتا رہتا ہے ٗ تڑپتا رہتا ہے
لوگ مسکراتے اِس کے آس پاس
یہ منہ اُٹھا کے دیکھتا رہتا ہے
حسرت کرتا ہے جینے کی مگر
جیتا نہیں ٗ سوچ سوچ کے مرتا رہتا ہے
بے زبان ہے اُس کے سامنے آتے ہی
تنہائی میں کسی سے کچھ کہتا رہتا ہے
دیوانہ سا ہے پہلے دن ہی سے
نامانوس سے رستوں پر بھٹکتا رہتا ہے
پھولوں کو چُھو چُھو کے دیکھتا ہے
بھری بھیگی برسات میں جلتا رہتا ہے