شاخِ زیتون کی ہچکیوں نے کہا
ہنستے ہنستے ہو ئے سِسکِیوں نے کہا
جل نہ جائے مُسافِر کڑی دھُوپ میں
پا پیادہ کڑی منزِ لو ں نے کہا
اپنی صُو رت دِکھائی نہ دی خواب میں
آ ئینہ خانوں کی وحشتوں نے کہا
خوشبو ؤ ں کا بدن جل نہ جا ئے کہیں
چاند راتوں کی جلتی رُ تو ں نے کہا
بند گو شِ سما عت کرو ں کِس طرح
یا د کی اَدھ کُھلی کھِڑکیوں نے کہانے کہا
اپنی آنکھوں کو تاوا ن میں رکھ دِیا
چشمِ بیدار کی ظُلمتوں نے کہا
گُل مُرادو ں کے مِلتے نہیں دُور تک
پارہ پارہ بَد ن تِتلِیو ں نے کہا
آب کے زخم سارے کنولؔ بن گئے
خاک ہوتے ہوئے گُلبنوں نے کہا