پھول اک آن میں بکھرتے ہیں
خوشبوئیں دیرپا نہیں رہتیں
موسموں کی روش ہے ڈھل جانا
وقت کا ہاتھ سے نکل جانا
سب نظاروں پہ مرگ لازم ہے
ہر حسیں چیز نے بدلنا ہے
اور اسے موت نے نگلنا ہے
جب کوئی انتہا تلک پہنچے
اور نظروں میں جب سما جائے
آنکھ اس کا طواف کرتی ہو
دل کو مٹھی میں جب دبوچے تو
بس وہی ہے زوال کا لمحہ
حسن کے انتقال کا لمحہ
ایک لمحے میں سب جو کھو جائے
موت کو اوڑھ کر جو سو جائے
یاد اس کو حیات دیتی ہے
لفظ اسکو زبان دیتے ہیں
آنکھ اس کو نہ دیکھ پائے پر
یہ اسے داستان دیتے ہیں
رنگ پھولوں کو اور نظاروں کو
ان خزاؤں کو ان بہاروں کو
چاند سورج کو اور ستاروں کو
بہتے دریاؤں کوہساروں کو
حسنِ دنیا کے شاہکاروں کو
لفظ دیتے ہیں جاودانی پھر
ان کے ہونے کی اک کہانی پھر
شکر ہے خالقِ جہاں کا کہ
لفظ لکھنا بتا دیا مجھ کو
اک سلیقہ سکھا دیا مجھ کو
رب کی تخلیق سب حسیں ہے اور
کارِ تخلیق کا امیں ہوں میں
سب ڈھلکتے ہوئے مناظر کے
حسن کا لفظِ دلنشیں ہوں میں
یاد ہوں لفظ ہوں حقیقت ہوں
وقت کی مہرِ آتشیں ہوں میں
صرف شاعر مجھے سمجھنا مت
زندگی کی طرح حسیں ہوں میں
زندگی کی طرح حسیں ہوں میں