شاعر کوئی مبلغ نہیں کہ درس پہ درس دیتا جائے
شاعر تو بس اپنے دل کی کہتا ہے سو کہتا جائے
سونامی کی لہروں نے شہر کے شہر اجاڑ دیئے
اور یہ شاعر اپنے بحر دل میں غوطہ کھاتا جائے
دنیا والوں دیوانے شاعر کی اس میں کیا غلطی ہے
دنیا دہشت کی زد میں یہ من کے گیت سناتا جائے
شاعر تو دنیا کو سندر سپنوں سے مہکاتا ہے
لیکن ابلیسی لشکر سپنوں کو آگ لگاتا جائے
کوئی تو آئے آ کر اس دہشت گردی کو روکے
دنیا سے نفرت اٹھ جائے امن کا دریا بہتا جائے