حُسنِ یوسُف ہو تو معیار بَدل جاتے ہیں
بِکنے والوں میں خریدار بَدل جاتے ہیں
ناشناسی کی عجب رِیت نئی نکلی ہے
موسموں کی طرح اب یار بَدل جاتے ہیں
ایک وہ ہیں جو ہمیشہ ہی رہے ہیں مُخلص
ایک ہم ہیں کہ جو بیکار بَدل جاتے ہیں
خُود فریبی کے لئے ہم نے گھڑے ہیں قصّے
ورنہ دولت سے تو کِردار بَدل جاتے ہیں
عید کا دِن ہے تو مِلنا ہے ضروری اُن سے
جن کے دیکھے سے سب اُفکار بَدل جاتے ہیں
سوچتے ہیں کہ ذرا فرق رہے اپنے بیچ
دیکھ کر یار کو ہر بار بَدل جاتے ہیں
عشق رُسوا نہ ہو، بَن جائیں اگر ہم مَجنوں
شوقِ پِندار میں آثار بَدل جاتے ہیں
لوگ کہتے ہیں حکومت کا بھروسہ کیا ہے؟
کارِ سرکار سے سرکار بَدل جاتے ہیں
پھُول لگتے ہیں، درِ یار کے پتھر ہم کو
اُس کے دیکھے سے سب آزار بَدل جاتے ہیں
ہے بجا اَشک بہانا بھی، شکایت اُس کی
قہقہوں سے ہم غمِ یار بَدل جاتے ہیں
اس قدر جلد بَدل جاتا ہے سچ تک، سرور
شام کو صبح کے اخبار بَدل جاتے ہیں