جمہور کے علمبردار
منافق ہیں یہ پہرے دار
حقوق پہ منافع بخش
خوب ہیں یہ کاروبار
روسی بم یاں گرتے ہیں
امریکی گولے پھٹتے ہیں
لبنانی، شیشانی، افغانی
ایرانی بھی یہاں ملتے ہیں
اس لاوارث سی بستی میں
سب ہی تو آکر لڑتے ہیں
سعودی بھی مجرم ہیں اس میں
ایرانی ہاتھ بھی رنگے ہیں
اس خونی وحشی مقتل میں
سب ہی مسلماں ننگے ہیں
ظلم اور بربریت نے
ایک یہ اچھا کام کیا
لبادہ پوش درندوں کا
نقاب چھین نوچ لیا
داعش کا قبضہ ختم ہوا
القاعدہ کا راج بھی
حزب اللہ کی کامیابی
نُجَبٰا کی جیت بھی
ملیامیٹ محلّوں میں لیکن
صرف جھنڈے اب لہراتے ہیں
نسلیں ہیں عرب
تعداد میں ارب
بچوں کے لاشے گرتے ہیں
ہم تماشا دیکھا کرتے ہیں
ان خشک پلکوں کے نیچے
کبھی آنسو تیرا کرتے تھے
کیا پتھر نماقلب بھی کہیں
مٹھی مسوس ہواکرتے ہیں
آزادی کے نعروں سے
جو گلیاں گونجا کرتی تھیں
اس فضا میں اب بارود کی بو
اور انسانی اعضاء ملتے ہیں
اپنی ماں جیسی ہستی
ننگے سر بھاگتے دیکھی ہے
ہر روز میرے ہی بچے
ٹکڑوں میں بکھرے ملتے ہیں
بہتا لہو گہرے زخم
ان ننھے منے جسموں پر
ان لت پت کھلی آنکھوں سے
جب نظر یں تم پر پڑتی ہیں
کیا نیند اچاٹ ہوتی ہے
کیا آنکھ کبھی کھل جاتی ہے
جب معصوموں کی روحیں اب
لحد میں اترا کرتی ہیں
ہمارے ضمیر بانہوں میں بھینچے
دفن ہوجایا کرتی ہیں
جب روز محشر یہ بے چارے
مسکراتے ہوئے جو اٹھیں گے
جلدی وہ گڑھا ڈھونڈو تو سہی
جس میں ہم سب تماشائی منہ چھپانےاتریں گے
مظلوموں کی آہیں سسکیاں
عرش ہلایا کرتی ہیں
مائیں بہنیں بیٹیاں
مردوں کی راہیں تکتی ہیں
اقبالی شاہینوں کے لاشے
کرگز نوچا کرتے ہیں
ستارے چھونے والی کمندیں
پھندوں کی صورت ملتی ہیں
کہتا ہے فیض ان مظلوموں کے پاؤں تلے
دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
پر ایسا تب ہے ممکن جب
ان ناداروں کے پہلو میں
ہم بھی قدم ملائیں گے
ہماری چاپ بھی کڑکے گی
یہ معصوم فرشتے صرف
درد و الم کے مارے ہیں
کن فیکون ارسال کر
اور ان کی مشکل آسان کر
الہیٰ تیری رحمت سے
بڑھ کر اور کچھ بھی تو نہیں
ہم معاصیوں کو معاف کر
اور ان کی مشکل آسان کر