کہاں گئے جتنے تھے چارہ گر میرے
دُوست بھی دُشمن تھے اکثر میرے
تیرے بن سنسان گلیاں ہیں میری
اُجڑے ہوئے ہیں دل و جگر میرے
چھن گیا جب تم سے ملنے کا وجود
ہے آگ سی لگی ہوئی اندر میرے
پھر وہی غمگیں شام کا سفر
پھر وہی کانٹے تھے ہمسفر میرے
نالہ و فریاد لے جائوں کہاں
اشک ہیں کس کے منتظر میرے