شاہد اُس نے مجھ کو تنہا دیکھ لیا ہے
دُکھ نے میرے گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے
اپنے آپ سے آنکھ چراۓ پھرتا ہوں میں
آئینے میں کسی کا چہرہ دیکھ لیا ہے
اب بھی سپنے بھوۓ تو ایمان ہے اُس کا
اُس نے آنکھوں میں سہارا دیکھ لیا ہے
اُس نے مجھے کبھی چاہا ہی نہیں تھا
خود کو دے کر یہ دھوکہ دیکھ لیا ہے
اُس سے ملتے وقت کا رونا کچھ فطری تھا
اُس سے بچھڑ جانے کا نتیجہ دیکھ لیا ہے
رخصت کرنے کے آداب نھباۓ ہی تھے مسعود
بند آنکھوں سے اُس کو جاتا دیکھ لیا ہے