شب غم چھوڑ کر مجھ کو نہ میرے چارہ گر ! جانا
قیامت ہے مرے نالوں کا ایسے بے اثر جانا
بسان گل خزاؤں میں سر گلشن بکھر جانا
ہے دیوانوں کا آساں کب ترا در چھوڑ کر جانا؟
بہاروں کو تری جادو نگاہی کا اثر جانا
چمن کے ان نظاروں کو ترا حسن نظر جانا
سلامی قیصران وقت کی ہم سے نہیں ہوتی
ہماری شان کے شایاں نہیں شاہوں کے گھر ، جانا
ہماری خاک اڑا کر اس گلی میں ڈال دینا کچھ
دیار یار میں ہو اے صبا ! تیرا اگر جانا
ہمیں ہے یاد اب تک ، کیا سہانا وقت تھا جس میں
تجھے دیکھا ، ترا ہر ایک انداز نظر جانا
تمھاری جستجو میں مارے مارے پھرتے رہنا وہ
تمھاری دید کی خاطر ادھر جانا ، ادھر جانا
متاع شوق دو آنسو ، اثاثہ خستہ حالی ہے
رہ الفت میں آہوں کی لئے زاد سفر جانا
پیئو ساغر خدا کا نام لے کر آج اے زاہد !
یہی انسانیت ہے ، کوئی اچھا کام کر جانا
جنون شوق یا جذبات کی ہے یہ فراوانی
زمانے کا ادھر سے روکنا ، اپنا مگر “ جانا “
اے میری خاک آشفتہ ! تجھے میری وصیت ہے
غبار رو کی صورت ان کے قدموں میں بکھر جانا
نہیں ہے مفتیان شہر کے فتوؤں کا ڈر ہم کو
اے رومی ! قبلہ ء دل ہم نے ان کا سنگ در جانا