شبِ غم کا تیری سویرا نہ ہو گا
تو جس کا ہے شاید وہ تیرا نہ ہو گا
مری بِین سننے کو ترسے گی ناگن
کہ جب گاؤں میں یہ سپیرا نہ ہو گا
بڑی شان تیرے بھَوَن کی بڑھے گی
اِدھر ایک خیمہ جو میرا نہ ہو گا
چمن سے بہاریں خفا ہی رہیں گی
اگر پنچھیوں کا بسیرا نہ ہو گا
یہ بستی شریفوں کی بستی ہے ساری
اِدھر کون ہے جو لٹیرا نہ ہو گا
بڑے لوگ پاپوں میں ڈوبیں گے کیسے
اگر ہر طرف ہی اندھیرا نہ ہو گا
اِدھر کوئی رہزن بھی ایسا نہیں ہے
جسے ہاتھ رہبر نے پھیرا نہ ہو گا