شجر کلام کریں شہر بھی نیا ہو جائے
میں ایک اسم پڑھوں اور معجزہ ہو جائے
یہ لوگ فرطِ تحیر سے مر بھی سکتے ہیں
اگر یہ خواب حقیقت میں رونما ہو جائے
گلے ملو کہ سلامت ہیں آج ہم دونوں
کسے خبر کہ یہاں کون کب جدا ہو جائے
یہ میں جو برملا اقبالِ عشق کرتا ہوں
عجب نہیں کہ مجھے عشق میں سزا ہو جائے
یہ دل قیام پہ مائل ہے ان دنوں ورنہ
عصا اُٹھاؤں تو دریا بھی راستہ ہو جائے