شجر یوں زندہ ہے کہ اپنی جگہ کھڑا ہوا ہے
پھر کیوں کوئی اس کی جان کے پیچھے پڑا ہوا ہے
کل جو بھکاری قریب مرگ تھا مانگتے ہوئے
آج اس کو دیکھا صحیح سلامت کھڑا ہوا ہے
انا آکے درمیاں سب تعلق کھا گئی ہے
میں اپنی ضد پہ اڑا ہوا ہوں، وہ اپنی ضد پہ اڑا ہوا ہے
نفرت کے صحرا میں اسے تلاش آبِ محبت ہے
سمندر پاس ہے لیکن وہ کوسوں دورکھڑا ہواہے
وہ ہی اچھا ہے زمانے میں جو الفت پاس رکھتا ہے
وہ ایسا ہے زمانے میں کہ پتھر میں نگینہ جڑا ہوا ہے