ابلیس گیا رات کو، پاس ایک جواں کے
پر ہول بنائے ہوئے تھا شکل کو سر کو
کہنے لگا میں موت ہوں بچنا جو تو چاہے
ان تین میں سے چن لے فقط ایک خطر کو
یا قتل تو کر دے پدر پیر کو اپنے
یا پھوڑ دے ہمشیر کے تو سینہ و سر کو
یا پی لے مئے ناب کے دو تین تو ساغر
تاکہ نہ کروں تن سے جدا میں تیرے سر کو
یہ سن کے گیا کانپ وہ، تھی بات ہی ایسی
ہاں موت تو لرزا دے تن ضیغم نر کو
بولا نہ کروں قتل بہن کو نہ پدر کو
مے پی کے ہی اپنے سے کروں دفع ضرر کو
دو تین پئے جام، وہ بدمست ہوا جب
خواہر کو بھی پیٹا، تو کیا قتل پدر کو
یا رب نہ ہرا ہو کبھی انگور کا پودا
اس شر سے بچا میرے خدا نوع بشر کو