شرابِ دید اب پلا ساقی
آنکھ تو آنکھ سے ملا ساقی
خود کو محسوس کرنے دے مجھکو
میری بانہوں میں تلملا ساقی
مے نہیں میں چھلک کے گرتا ہوں
جام بھر کے تو نہ ہلا ساقی
مررہا ہوں غمِ گزشتہ سے
جامِ لبریز ہے جلا ساقی
پی کے بھولا ہوں سارے غم اپنے
بعد مدت کے ہوں کِھلا ساقی
ہوش ہے نہ مجھے خبر اپنی
کوئی رنجش ہے نہ گلہ ساقی
احسنِ تشنہ چھوڑے گا کب مے؟
زیست ہے کیا بھلا بلا ساقی؟