شروعِ عشق سے جو رہے اُس کی پناہوں میں
باعثِ قید تھا یہی‘جا پہنچے سلاخوں میں
ہم سے تو دیکھی نہیں جائے کوئی بدقسمتی
سمیٹا ہے شہر کی گرد کو بھی باہوں میں
کبھی میری روح کی گہرائی میں کھو کر دیکھ
کبھی اُتر کر دیکھ اِ ن خاموش نگاہوِ ں میں
کبھی سنو تو دل کی پاس بیٹھ کر
کبھی سمجھو تو کیا کہتے ہیں آہوں میں
ہمیں رہنا ہے گھنے پیڑوں کی چھاؤٔں میں
ہمیں لپٹنا ہے شجرِ وفا کی شاخوں میں