شعرو سخن کا یہاں تک جنون پہنچا
آخر بزم سخن میں جاکر سکون پہنچا
ہم پہ جب بھی کوئی برا وقت آیا
پھر نہ کوئی دوست نہ ان کافون پہنچا
عدالت میں غریب کی سنوائی نہ ہوئی
اور امیر کے گھر نہ قانون پہنچا
ہمارے جسم میں ایک بوند نہ رہنے دی
جو حقدار تھے ان تک نہ خون پہنچا
عید سے قبل ہی اصغر کی عید ہو گئی
جب سے آپ کا عید کارڈ مسنون پہنچا