لباس اُس نے تھا پہنا ایسا سُرخ جیسے شعلہ
سراپا اُسکا لاجواب مثل سُرخ جیسے شعلہ
یوں محفل میں ٹہل رہی تھی جیسے شعلہ
اُس کی دراز زلفیں ہواؤں سے کھیل رہی تھی
آداوں کے چال میں ہرنی سی چل رہی تھی
دل پر میرے وہ یوں لپک رہی تھی جیسے شعلہ
گفتارمیں اُس کی جادو اور ہونٹوں پر شرارت تھی
نظروں میں اُس کی شوخی اور دل میں محبت تھی
جلووں کو دکھاتے وہ یو ں بھڑک رہی تھی جیسے شعلہ
نظروں اور اشاروں سے نغمہ عشق گا رہی تھی
آنکھوں کے راستے وہ دل میں اُتر رہی تھی
مجھ کو راکھ کرتے یوں سلگ رہی تھی جیسے شعلہ