میں وہ وارفتہ۶ِ شوق ھوں، جسے اپنی بھی کچھ خبر نہیں
جسے آس ہو کسی سمت کی، جسے اپنا مکان بھی گھر نہیں
یھ اوارگی بھی عجیب ھے کہ گمانِ منزل ابھی بھی ہے
کویٔ آس ہے نہ امید ہے، نا امیدگی بھی مگر نہیں
یہ کمال فرقتِ یار ہے، یہ ترے کرم ہی کا ذوق ہے
کے بجز تمھارے جمال کے، کسی اور کا کچھ اثر نہیں
وہ کریں جو دعوی صبح تو مجھے ان سے کویٔ گلہ نہیں
کہ بناۓ جلوۂ یار ہی میرے چار سو میں سحر نہیں
یا تو تو گرفتار حال کر یا سدا کا محو خیال کر
کہ بغیر تیرے خیال کے کسی دلکشی میں سحر نہیں