شوق نظر گلاب سے بھی مطمئن نہیں
چشم اداس خواب سے بھی مطمئن نہیں
کس عمر میں نہ جانے قناعت پسند ہو
یہ دل کہ دستیاب سے بھی مطمئن نہیں
اب تیرے خد و خال پہ کیا اکتفا کرے
یہ آنکھ ماہتاب سے بھی مطمئن نہیں
بس یوں ہی بے قراری کی لت میں ہوں مبتلا
ویسے میں اضطراب سے بھی مطمئن نہیں
میرے بھلے دنوں پہ بھی وہ معترض رہا
اب ساعت خراب سے بھی مطمئن نہیں
کتنوں کو راہ راست پہ لایا حسنؔ مگر
درویش اس ثواب سے بھی مطمئن نہیں