شکستہ آئینوں کی کرچیاں اچھی نہیں لگتیں
مجھے وعدوں کی خالی سیپیاں اچھی نہیں لگتیں
گزشتہ رت کے رنگوں کے اثر دیکھو کہ اب مجھ کو
کھلے آنگن میں اڑتی تتلیاں اچھی نہیں لگتیں
وہ کیا اجڑا نظر تھا جس کی چاہت کے سبب اب تک
ہری بیلوں سے الجھی ٹہنیاں اچھی نہیں لگتیں
دبے پاؤں ہوا جن کے چراغوں سے بہلتی ہو
مجھے ایسے گھروں کی کھڑکیاں اچھی نہیں لگتیں
بھلے لگتے ہیں طوفانوں سے لڑتے بادباں مجھ کو
ہوا کے رخ چلتی کشتیاں اچھی نہیں لگتیں
یہی کہہ کر آج اس سے بھی تعلق توڑ آیا ہوں
میری جاں مجھ کو ضدی لڑکیاں اچھی نہیں لگتیں
گھر میں رہن بستہ رہیں رات دن جو محسن
مجھے اکثر وہ سہمی ہرنیاں اچھی نہیں لگتیں