شرافت سَوز تصویروں کی عُریانی نہیں جاتی
ادب کی آڑ میں ترغیبِ رومانی نہیں جاتی
خُدا معلوم نسل نوح کا کیا انجام ہوتا ہے
وطن سے فحش نغموں کی فراوانی نہیں جاتی
عذاب آۓ تو اُس میں سینکڑوں کی جن جاتی ہے
نہیں جاتی تو شیطانوں کی شیطانی نہیں جاتی
کہیں بستی کی بستی بوند پانی کو ترستی ہے
کہیں بارش برستی ہے تو طُغیانی نہیں جاتی
جہاں کے ذرے ذرے سے نمایاں ہے جلال اُس کا
مگر ہم سے خُدا کی ذات پہچانی نہیں جاتی